Muhammad Bilal محمد بلال
Friday, 3 February 2023
Thursday, 16 October 2014
Sunday, 24 November 2013
پاکستان کے دفاع کا ذمہ دار ادارہ پاک عسکری
پاکستان میں اس وقت فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی صورت میں
دو منظم ادارے موجود ہیں۔ پاکستان کے دفاع کا ذمہ دار ادارہ پاک عسکری ہے جسے سب
سے منظم اور ترقی یافتہ ادارہ سمجھا جاتا ہی۔اس ادارے کے تین بڑے حصے یا اعضاء ہیں
جن میں پاک آرمی، پاک فضائیہ اور پاک بحریہ شامل ہیں۔ افوجِ پاکستان بہادری اور
جرأت کی لازوال روایت کی پاسداری کرتے ہوئے اندرونی اور بیرونی خطرات سے مادرِ وطن
کا دفاع کر رہی ہیں۔ پاک فوج ہر میدان میں عوام کے شانہ بشانہ، متحد اور مضبوط
کھڑی ہی۔ سراغ رساں اداروں میں انتہائی مضبوط ادارہ انٹر سروسز انٹیلی جنس ہے جو
کہ عرفِ عام میں آئی ایس آئی کے نام سے مشہور ہے۔ عالمی شہرت کے حامل اس ادارے کا
کام دشمن کی چالوں، خفیہ سازشوں، ملک کو درپیش خطرات کو قبل از وقت بے نقاب کرکے
ملک کا بالواسطہ طور پر تحفظ کرنا ہے جبکہ افواجِ پاکستان کے دیگر ذیلی انٹیلی جنس
اداروں میں ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی)، نیول انٹیلی جنس (این آئی) اور ایئر
انٹیلی جنس (اے آئی) شامل ہیں۔ ایم آئی، این آئی اور اے آئی تینوں صرف اپنی اپنی
سروس کی حد تک خفیہ معلومات حاصل کرتی ہیں جبکہ آئی ایس آئی کا دائرہ کار وسیع ہے۔
آئی ایس آئی اور افواجِ پاکستان ہے ایسے ادارے ہیں کہ جن پر پاکستان کی عوام کا
مکمل اعتماد اور بھروسہ ہے ۔ عوام ان دونوں اداروں کو اپنی حفاظت کا ذمہ دار اور
اپنی قربانیوں کا امین تصور کرتی ہے اور یہی وجہ ہے یہ دونوں ادارے پاکستان کے
دفاع و سلامتی کے بھی ضامن ہیں۔ پاکستان کی سلامتی کو جب بھی کوئی اندرونی یا
بیرونی خطرہ لاحق ہوا ان دونوں اداروں نے اپنا فرض احسن طریقے سے نبھایا ہے ۔
یہ دونوں ادارے چونکہ دشمن کے مذموم مقاصد کی راہ میں
سیسہ پلائی دیوار کا کردار ادا کر رہے ہیں اسی وجہ سے دشمنانِ پاکستان کو بھی کھٹک
رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی کو نفرت کی علامت بنانے کیلئے سازشیں
زور و شور سے جاری ہیں۔ ایک طرف افواجِ پاکستان کے خلاف نفرت کے بیج بوئے جا رہے
ہیں جبکہ دوسری طرف آئی ایس آئی جیسے ضامن ادارے کے خاتمے یا اس کی سرگرمیوں کو
مفلوج کرانے کیلئے یہود و ہنود امریکا کی مدد سے سرگرم عمل ہیں۔ ہمارا دشمن جانتا
ہے کہ ان دونوں اداروں کو دیوار کے ساتھ لگا کر ہی وہ پاکستان کے جوہری اثاثوں تک رسائی
حاصل کر سکتا ہے۔ آج پاکستان کے جوہری اثاثوں پر کئی سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔
ہمارے ایٹمی اثاثوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کتنا مضبوط ہے یہ جاننے کیلئے اتنا
کافی ہے کہ ان کے تحفظ کیلئے پاک فوج اور آئی ایس آئی کے کئی جانبازوں نے اپنی
ساری زندگیاں اس مقصد کیلئے وقف کر دی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دشمن اپنا سارا زور اِن
دونوں اداروں کو بدنام کرانے میں لگا رہا ہے۔ ہمارے پڑوسی دشمن ملک بھارت نے تو
بہت پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ہم آئی ایس آئی کو تباہ کرکے ہی دم لینگے۔آئی ایس آئی
چونکہ فوج کے نظام کی آنکھ اور کان کا کام کرتی ہے اور ہمارا دشمن یہ بھی جانتا ہے
کہ جب تک افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ آئی ایس آئی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں
انجام دے رہی ہے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے ان کے ارادے کبھی کامیاب نہیں ہو
سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس ادارے کے خلاف نہ صرف زہر اگلا جا رہا ہے بلکہ سازشوں
کے جال بھی بنے جا رہے ہیں۔ فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف ہونے والی اس سازش میں
امریکا، اسرائیل اور بھارت برابر کے شریک ہیں۔
اسلامی پاکستان ،اس کی افواج اور آئی ایس آئی کے خلاف ایک
عالمی سازش ترتیب دی جا رہی ہے اور اس سازش کے تحت امریکا نے پاکستان کی بقاء کی
ضمانت آئی ایس آئی کو دوسرے ممالک کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے پہلے سول حکومت کے
ماتحت کرنے کا مطالبہ کیا۔ حکومت نے خارجی دبائو کے زیر اثر رہ کر جب آئی ایس آئی کو
وزارت داخلہ کے ماتحت کیا تو عسکری، سیاسی، سماجی، عوامی حلقوں اور میڈیا کی جانب
سے شدید ردِعمل کے بعد یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اگر امریکا کی یہ چال کامیاب ہو
جاتی تو یہ پاکستان کے دفاع پر ایک کاری ضرب ہوتی کیونکہ آئی ایس آئی کو سول حکومت
کے ماتحت کرنا ایسا ہی ہے جیسے خدانخواستہ بندر کے ہاتھ میں اُسترا پکڑانا۔ اس کے
بعد ایبٹ آباد آپریشن کے ذریعے ایک اور سازش تیار کی گئی۔ اس آپریشن کے بعد جس طرح
کے متضاد بیانات سامنے آ رہے ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ یہ بھی ایک ڈرامہ، جھوٹ اور
فریب پر مبنی کہانی ہے جس کا مقصد نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کی سبکی کرنا ہے
بلکہ عوام اور فوج کے درمیان بداعتمادی پیدا کرنا اور آئی ایس آئی کو دنیا کی نگاہ
میں ذلیل کرنا ہے۔
ایک طرف امریکا آئی ایس آئی کے طرح طرح کے شوشے چھوڑ رہا
ہے جبکہ دوسری طرف انٹیلی جنس رپورٹس سے یہ بات مکمل طور پر عیاں ہو چکی ہے کہ پاک
فوج کے خلاف لڑنے والے اور ملک میں خودکش دھماکوں کے ذمہ دار ’’ظالمان‘‘ کو اسلحہ
اور پیسہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے مل رہا ہے۔ امریکا کا ایک مقصد
ایشیاء میں اجارہ داری قائم کرکے چین کو روکنا ہے جبکہ دوسرا پاکستان کی ایٹمی
ٹیکنالوجی کو ختم کرنا ہے۔ امریکا پاکستان کے مقابلے میں جان بوجھ کر بھارت کو
طاقت اور تحفظ فراہم کر رہا ہے اور امریکا کی یہ چال ہماری پاک فوج بہت پہلے سے ہی
سمجھ چکی ہے۔دنیا جانتی ہے کہ امریکا منصوبہ بندی سے بھارت کو پاکستان کے ساتھ تنازعات
میں اُلجھا کر اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے اور یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ
امریکا نے ہمیشہ پاکستان کو سٹرٹیجک مقاصد کیلئے استعمال کیا۔جس طرح امریکا اور
بھارت کا یہ اتحاد ٹھوس حقیقت میں بدل چکا ہے اسی طرح پاکستان اور چین کے درمیان
بھی بہتر انڈر سٹینڈنگ موجود ہے۔ آج پاکستان کے تمام تر حالات کا ذمہ دار امریکا
اور انڈیا ہے۔ مکار دشمن بلکہ دوست نما دشمن کی چالوں کو صحیح طرح سمجھے بغیر اس
کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ پوری دنیا میں امریکا کی ساکھ خراب ہے جبکہ
پاکستانی عوام میں یہ ساکھ اُسی دن خراب ہو گئی تھی جس دن مشرقی پاکستان کا سانحہ
پیش آیا۔
آئی ایس آئی نے وہ کام کیئے جو دنیا میں کوئی بڑی سے بڑی
فوج بھی نہیں کر سکی۔ یہ آئی ایس آئی ہی کا کارنامہ ہے کہ اس نے اپنے وقت کی سپر
پاور سوویت یونین کو توڑا۔ دوسرا اس کا بڑا کارنامہ امریکہ کو شکست کے دھانے پر پہنچانا۔۔۔
امریکا کو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ سوویت یونین اور برطانیہ بھی کبھی سپر پاور تھی۔
سیانے کہتے ہیں کہ امریکا مسلمانوں کے جس فعل کی مخالفت
کرے تو اُسے عین مسلمانوں اور اسلام کے حق میں سمجھیں اور جس کے حق میں بیان دے
سمجھ لیں کہ وہ مسلمانوں اور اسلام کے حق میں نہیں ہے۔ اس کی روشنی میں مجھے مسلح
افواج اور آئی ایس آئی کا کردار عین پاکستان اور مسلمانوں کے حق میں محسوس ہوتا
ہے۔امریکا اور اُس کے حواریوں کی طرف سے پاک فوج اور آئی ایس آئی کو کمزور کرنے کی
کوشش ہو رہی ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے ہیں افواجِ پاکستان اور انٹیلی جنس اداروں
کے معاملے میں پاکستانی متحد ہیں۔ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ وہ اِن دونوں
اداروں کو کمزور کرکے اپنے مقاصد حاصل کر لے گا۔امریکا ہمارا کھلم کھلا دشمن ہے
اور یہ بات ہر پاکستانی جانتا ہے لیکن حکمران نہیں جانتے کیونکہ امریکی ڈالر انہیں
یہ ’’جاننے‘‘ نہیں دیتے۔ افسوس کہ ہمارے سیاستدان اور بیورو کریٹس امریکا کے ہاتھوں
ارزاں نرخوں پر بِک جاتے ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد اسلامی سپر پاور ہے اور اس کا
دفاع ناقابل تسخیر ہے۔ ہماری افواج تربیت یافتہ اور بہترین افواج میں شمار ہوتی
ہیں۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ ہماری فورسز کی تربیت ایسی ہے کہ وہ امریکی
افواج کو تربیت دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کوئی اس غلط فہمی میں مت رہے کہ پاک فوج
امریکا یا نیٹو سے تربیت لیتی ہے۔ ویت نام سے بھاگی ہوئی، عراق میں پھنسی ہوئی،
افغانستان کے دس فیصد علاقے سے باہر نہ نکل سکنے والے پاک فوج کو کیا تربیت دیں
گے؟جو لوگ موت کے خوف سے زمینی کارروائی نہ کریں اور فضائی کاروائیاں کرکے بے گناہ
لوگوں کو ماریں وہ ہماری افواج کو کیا تربیت دینگی۔
ہمارا دشمن ہر طرف سے گھات لگائے بیٹھا ہے جن میں بھارت
اور اسرائیل بھی شامل ہیں۔ افواجِ پاکستان نے ملک کی علاقائی سالمیت، عوام کے تحفظ
اور فلاح بہبود کو یقینی بنانے کیلئے کبھی کسی قربانی سے دریغ کیا ہے اور نہ ہی
کرے گی۔ ہماری فوج باصلاحیت ہے اس میں کوئی شک نہیں خاص کر وہ دستے جو میدان میں
موجود ہوتے ہیں۔آئی ایس آئی بھی ہماری افواج کے ساتھ کھڑی ہے اور دشمن کی سازشوں،
خفیہ چالوں اور ملک کو درپیش خطرات سے فوج اور حکومت کو آگاہ کر رہی ہے۔ آئی ایس
آئی وہ تنظیم ہے جس نے کم ترین وسائل کے باوجود دنیا میں معرکے سرانجام دیئے بلکہ
یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ آئی ایس آئی کے کئی کارنامے ایسے ہیں جو دنیا میں
کوئی بڑی سے بڑی فوج بھی نہیں کر سکی۔ایبٹ آباد سازش کے بعد پہلی بار یہ تنظیم
دفاعی پوزیشن پر چلی گئی ہے لیکن انشاء اللہ دشمن کی یہ چال بھی کامیاب نہیں ہوگی۔
ہمارا دشمن اور اُس کے حواری یہ جانتے ہیں کہ جب تک افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ
آئی ایس آئی موجود ہے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے ان کے ارادے کبھی کامیاب نہیں
ہو سکیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ اپنے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کی پاداش میں فوج اور آئی
ایس آئی نے بدنامی مول لی ہے۔ جوہری اثاثوں کے تحفظ اور رازداری کی داستان کی
گہرائیوں میں اگر ہم جائیں تو فوج کے حکومت میں آنے کی غلطی کو بھی مجبوری تسلیم
کرنا پڑے گا۔ جس طرح پاک فوج نے دنیا کی بہادر، محنتی اور جفاکش فوج ہونے کا اعزاز
حاصل کیا ہے اسی طرح آئی ایس آئی کا شمار بھی دنیا کے ٹاپ رینکنگ سراغ رساں اداروں
میں ہوتا ہے۔ پوری قوم پاک فوج اور آئی ایس آئی کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور انشاء
اللہ وہ اِن دونوں اداروں کے خلاف کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہونے دیگی۔ _
Monday, 26 August 2013
جنرل ضیاءالحق کا دورہ بھارت ''کرکٹ ڈپلومیسی'' 1987
انڈیا ٹو ڈے کے نامہ نگار اپنے مضمون
ضیاء الحق کا دورہ ہندوستان میں راجیو گاندھی کے خصوصی مشیر "بہرامنام "
کے تاثرات یوں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔!!!
" جنرل ضیاءالحق بغیر کسی دعوت کے کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے دہلی پہنچے ۔ اس وقت راجیو گاندھی اس کو ائر پورٹ پر ریسیو کرنے کے لیے بلکل تیار نہیں تھے ۔ انڈین افواج راجھستان سیکٹر سے پاکستان پر حملہ آور ہونے کے لیے صرف اپنے وزیر اعظم کی حکم کی منتظر تھیں ۔ ان حالات میں ضیاء الحق سے ملنا ہرگز مناسب نہیں تھا ۔ لیکن کیبنٹ کے اراکین اور اپوزیشن لیڈرز کا خیال تھا کہ کسی دعوت نامے کے بغیر بھی ضیاء الحق کی دہلی آمد ( وہاں سے انہوں نے چنائی جانا تھا میچ دیکھنے) پر اسکا استقبال نہ کرنا سفارتی آداب کے خلاف ہوگا اور ان حالات میں پوری دنیا میں انڈین لیڈرز کے بارے میں غلط فہمی پھیلی گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ہمارے مطالبے پر راجیو گاندھی ضیاء الحق سے ملنے ائر پورٹ پہنچا اور اسنے نہایت سرد مہری سے ضیاء کی آنکھوں میں دیکھے بغیر اس سے ہاتھ ملایا ۔ راجیو نے مجھے سے کہا کہ " جنرل صاحب نے چنائی میچ دیکھنے جانا ہے آپ اسکے ساتھ جائیں اور انکا خیال رکھیں "۔ بھگوان جانتا ہے کہ وہ شخص آہنی اعصاب کا مالک تھا اور راجیو کے ہتک آمیز رویے پر بھی اس کے چہرے پر بدستور مسکراہٹ قائم رہی ۔۔۔۔۔!!
چنائی کے لیے روانگی کے وقت ضیاء الحق نے راجیو گاندھی کو خدا حاٖفظ کہنے سے پہلے کہا ۔۔۔۔۔۔" مسٹر راجیو آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں بے شک کریں ۔ لیکن یہ ذہن میں ضرور رکھیں کہ اسکے بعد دنیا چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائے گی اور صرف ضیاءالحق اور راجیو گاندھی کو یاد رکھے گی ۔ کیونکہ یہ ایک روائیتی جنگ نہیں ہوگی بلکہ ایٹمی جنگ ہوگی ۔ ممکنہ طور پر اس میں پورا پاکستان تباہ ہو جائے گا لیکن مسلمان پھر بھی دنیا میں باقی رہیں گے تاہم انڈیا کی تباہی کے بعد ہندومت کا پوری دنیا سے خاتمہ ہو جائے گا۔ "
راجیو گاندھی کے پیشانی پر ٹھنڈے پسینے کے قطرے نمودار ہو چکے تھے ۔ جبکہ مجھے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس ہو رہی تھی ۔ صرف کچھ لمحات کے لیے ضیاء الحق ہمیں ایک نہایت خطرناک شخص نظر آیا ۔ اس کا چہرہ پتھرایا ہوا تھا اور اسکی آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس پر لازمً عمل کرے گا اور پورے بر صغیر کو ایٹمی جنگ کی مدد سے راکھ میں تبدیل کر دے گا ۔
میں دہل کر رہا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ پلک جھپکتے ہی ضیاء کے چہرے پر مسکراہٹ لوٹ آئی اور اسنے کھڑے دیگر لوگوں سے نہایت گرم جوشی سے ہاتھ ملایا ۔ میرے اور راجیو کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ بظاہر ہلکے پھلکے اور خوشگوار موڈ میں نظر آنے والے ضیاء الحق نے انڈین وزیر اعظم کے لیے شدید پریشانی پیدا کر دی ہے
" جنرل ضیاءالحق بغیر کسی دعوت کے کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے دہلی پہنچے ۔ اس وقت راجیو گاندھی اس کو ائر پورٹ پر ریسیو کرنے کے لیے بلکل تیار نہیں تھے ۔ انڈین افواج راجھستان سیکٹر سے پاکستان پر حملہ آور ہونے کے لیے صرف اپنے وزیر اعظم کی حکم کی منتظر تھیں ۔ ان حالات میں ضیاء الحق سے ملنا ہرگز مناسب نہیں تھا ۔ لیکن کیبنٹ کے اراکین اور اپوزیشن لیڈرز کا خیال تھا کہ کسی دعوت نامے کے بغیر بھی ضیاء الحق کی دہلی آمد ( وہاں سے انہوں نے چنائی جانا تھا میچ دیکھنے) پر اسکا استقبال نہ کرنا سفارتی آداب کے خلاف ہوگا اور ان حالات میں پوری دنیا میں انڈین لیڈرز کے بارے میں غلط فہمی پھیلی گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ہمارے مطالبے پر راجیو گاندھی ضیاء الحق سے ملنے ائر پورٹ پہنچا اور اسنے نہایت سرد مہری سے ضیاء کی آنکھوں میں دیکھے بغیر اس سے ہاتھ ملایا ۔ راجیو نے مجھے سے کہا کہ " جنرل صاحب نے چنائی میچ دیکھنے جانا ہے آپ اسکے ساتھ جائیں اور انکا خیال رکھیں "۔ بھگوان جانتا ہے کہ وہ شخص آہنی اعصاب کا مالک تھا اور راجیو کے ہتک آمیز رویے پر بھی اس کے چہرے پر بدستور مسکراہٹ قائم رہی ۔۔۔۔۔!!
چنائی کے لیے روانگی کے وقت ضیاء الحق نے راجیو گاندھی کو خدا حاٖفظ کہنے سے پہلے کہا ۔۔۔۔۔۔" مسٹر راجیو آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں بے شک کریں ۔ لیکن یہ ذہن میں ضرور رکھیں کہ اسکے بعد دنیا چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائے گی اور صرف ضیاءالحق اور راجیو گاندھی کو یاد رکھے گی ۔ کیونکہ یہ ایک روائیتی جنگ نہیں ہوگی بلکہ ایٹمی جنگ ہوگی ۔ ممکنہ طور پر اس میں پورا پاکستان تباہ ہو جائے گا لیکن مسلمان پھر بھی دنیا میں باقی رہیں گے تاہم انڈیا کی تباہی کے بعد ہندومت کا پوری دنیا سے خاتمہ ہو جائے گا۔ "
راجیو گاندھی کے پیشانی پر ٹھنڈے پسینے کے قطرے نمودار ہو چکے تھے ۔ جبکہ مجھے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس ہو رہی تھی ۔ صرف کچھ لمحات کے لیے ضیاء الحق ہمیں ایک نہایت خطرناک شخص نظر آیا ۔ اس کا چہرہ پتھرایا ہوا تھا اور اسکی آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس پر لازمً عمل کرے گا اور پورے بر صغیر کو ایٹمی جنگ کی مدد سے راکھ میں تبدیل کر دے گا ۔
میں دہل کر رہا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ پلک جھپکتے ہی ضیاء کے چہرے پر مسکراہٹ لوٹ آئی اور اسنے کھڑے دیگر لوگوں سے نہایت گرم جوشی سے ہاتھ ملایا ۔ میرے اور راجیو کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ بظاہر ہلکے پھلکے اور خوشگوار موڈ میں نظر آنے والے ضیاء الحق نے انڈین وزیر اعظم کے لیے شدید پریشانی پیدا کر دی ہے
Sunday, 23 December 2012
چین جاپان تنازع خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے
بحرالکاہل
میں واقع سینکاکو/ دیایوجزائر کی ملکیت کے مسئلے پر چین اور جاپان میں کشیدگی
بڑھتی جار ہی ہے۔
جو
ناصرف دونوں ممالک کے لئے بلکہ پورے خطے کی سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ بن سکتی ہے،چین اور جاپان کے درمیان ان جزائر کی
ملکیت کا معاملہ کوئی آج کا نہیں بلکہ یہ مسئلہ 1972ء سے
حل طلب ہے جب امریکا نے ان جزائر کا قبضہ چین کا پہلا حق ہونے کے باوجود
جاپان کو منتقل کر دیا تھا اس سے قبل بھی چین اس مسئلے کو مختلف فورمز پر
اجاگر کرتا رہا ہے۔
متنازعہ
جزائر کو جاپان والے سینکاکو اور چین والے دیایو کے نام سے پکارتے
ہیں،ان میں پانچ جزیرے اور تین چٹانیں شامل ہیں۔ 15ویں صدی میں یہ جزیرے چینی سلطنت کا حصہ تھے تب امراء کے وفود ان
جزیروں کا گاہے بگاہے دورہ کرتے تھے۔
جزیروں
کے اس مجموعے کا نام دیایو بھی منگ سلطنت کے شاہی نقشے سے لیا گیا ہے اور اس گروہ کے اہم جزیرے یوتیسوری کا نام بھی
جاپانیوں نے منگ سلطنت کے نقشے سے ہی اخذ کیا ہے ،
ان دونوں ناموں کے معنی ماہی گیری کے ہیں، جبکہ ایک برطانوی کیپٹن بلچر
نے اپنی کتاب میںان جزیروں کا ذکر پناکل (Pinnacle)
آئی
لینڈکے نام سے کیا۔ 1870ء اور 1880ء کی دہائیوں میں برطانوی بحریہ
نے ان جزائر کے ساتھ واقع پہاڑیوں کے لئے پناکل کا نام استعمال کیا۔ اصل میں پناکل بھی انگریزی میں سینکاکواور دیایو کا
مترادف ہے۔
جاپان
اس زمانے میں ایک بڑی فوجی طاقت تھا اور اپنی طاقت کے زور پر اردگرد
کے علاقوں کو اپنے زیر نگیں کر رہا تھا ،تب14 جنوری 1895ء میں جاپانی حکومت نے ان جزائر کو باقاعدہ اپنے قبضے میں لے
لیا۔ 1900ء کے اوائل میں جاپانی بزنس مین کوگا تتسو شیرو
نے وہاں بونیتو فشرپز پلانٹ لگایا جہاں 200 ملازمین کام کرتے تھے یوں
جاپانیوں کا وہاں آنا جانا لگا رہا تاہم چین کے
ماہی گیر بھی ان جزائر کو اپنے عارضی قیام کے لئے استعمال کرتے تھے ۔ 1940ء میں کاروبار میں نقصان کی وجہ سے یہ
منصوبہ بند کرنا پڑا‘ اس کے بعد یہ جزیرے تقریباً ویران ہو گئے۔
کوگا
تتسو شیرو کے وارثوں زنجی اور پناکونے چارجزیرے کو ری ہاراخاندان کو فروخت کر دیئے۔ کونیکی کوری ہارا نے یوتیسوری‘ کیتاکو
جیما اور منامی کو جیما نامی جزیرے خریدے جبکہ اس کی
بہن نے کیوبا نامی جزیرہ خریدا۔
دوسری
جنگ عظیممیں جاپان کی شکست اور سارے علاقے پر امریکی قبضے کے بعد 1945ء میں
یہ جزیرے امریکی حکومت کے کنٹرول میں آ گئے۔ 1969ء میں اقوام متحدہ
کے اکنامکس کمشن برائے ایشیا اور مشرق بعید نے رپورٹ دی کہ چین کے قریب بحرالکاہل میں واقع ان جزائر میں تیل اور گیس کے
ذخائر موجود ہیں۔ 1971ء میں امریکی سینٹ
نے اوکی ناوا ریورشن ٹریٹی کے معاہدے کو منظور کر لیا جس
کے بعد 1972ء میں امریکہ نے جزیرے جاپان کے حوالے کر دیئے، مگر چین اور تائیوان نے اس کی شدید مخالفت کی اور دعویٰ کیا کہ
سینکاکو/ دیایو جزائر ان کی ملکیت ہیں اور وہی اس
کے صحیح حق دار ہیں۔
امریکی
سینٹ کا بل کیا پاس ہوا گویاجاپان نے اسے اپنے حق ملکیت پر مہر سمجھ لیا تب سے ان جزائر پر جاپان کا کنٹرول ہے، چونکہ
جزائر ویران پڑے ہوئے تھے اس لئے چین نے کچھ زیادہ
احتجاج نہ کیامگر اس کا موقف اٹل تھا اور اس سے
کسی صورت پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہ تھا ۔ اسی سال جاپان کے ایک جزیرے ایشی کاگاکے میئر نے ان جزیروں کی تعمیر و ترقی
کے لئے کوشش کی مگر حکومت کے منع کرنے پر وہ اس پر عمل
نہ کر سکا۔ 1979ء میں 50 سرکاری افسروں پر مشتمل ایک وفد نے ان جزائر کا
دورہ کیا اور چار دن تک جزیرہ یوتیسوری پر کیمپ
لگایا،وفد میں ماہرین ماحولیات کو خاص طور پر شامل کیا گیا تھا۔ اس دوران وہاں کے ماحول بالخصوص آب و ہوا کا جائزہ لیا گیا
تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ یہاں کا ماحول انسان کی
رہائش کے لئے کتنا موزوں ہے۔
2002ء سے 2012ء
تک جاپانی وزارت داخلہ نے کونیکی کوری ہارا سے تین جزیرے یوتیسوری‘
منامی کو جیما اور کیتا کو جیما 25 ملین ین سالانہ کرائے پر لے لئے جبکہ اس کی بہن سے جاپان کی وزارت دفاع نے جزیرہ
کیوبا کرائے پر لیا جس کے سالانہ کرائے کی رقم خفیہ رکھی
گئی۔ اس جزیرے کو امریکی فوج فضائی بمبماری کی تربیت کے لئے اپنے
کنٹرول میں رکھے ہوئے ہے۔ ساتھ ہی موجود پانچویں
جزیرے تیشو جیما پر 1972ء سے ہی جاپان کا کنٹرول ہے،یہ رقبے میں سب سے چھوٹا ہے۔
17 دسمبر 2010ء
کو جاپانی جزیرے ایشی کاگا کی انتظامیہ نے سینکا کو/دیایو
جزائر پرجاپان کے 1895ء سے قبضے کو یادگار دن کے طور پر منانے کے لئے 14 جنوری کی تاریخ مقرر کی تو چین کی طرف سے ان کے
اس اقدام کی بھرپور مذمت کی گئی۔ 2012ء میں جاپانی
حکومت اور ٹوکیو میٹروپولیٹن نے تین بڑے جزیرے
یوتیسوری‘ کیتاکو جیما اور منامی کو جیما کے مالک کوری ہار ا سے خریدنے کے منصوبے کا اعلان کیااور یہ 11 ستمبر 2012ء
کوپایہ تکمیل تک پہنچا۔جاپانی حکومت نے کوری ہارا سے
تینوں جزیرے 2.05 بلین ین میں خرید لئے۔
غو ر
طلب پہلو یہ ہے کہ ان بے آباد اور ویران جزائر کے حوالے سے جاپان کے موقف میں یکایک یہ شدت کیوں پیداہوئی ؟پہلے بھی تو
جزائر وہیں پر موجود تھے ۔معاملات میں تبدیلی اس وقت آئی
جب امریکا نے شمالی کوریا کے خلاف میزائل سسٹم کی تنصیب کا اعلان کیا
جس کے لئے امریکا کو بحرالکاہل میں موزوں مقام کی تلاش ہے۔اس اعلان کے
بعد ان جزائر کی اہمیت دو چند ہوگئی کیونکہ ان جزائر سے شمالی کوریا کے
ساتھ ساتھ چین پر بھی نظر رکھی جا سکتی ہے یعنی ایک تیر سے دو شکار والی
بات ہے۔
امریکہ
کا ہمیشہ سے یہ طریقہ کار رہا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے بالواسطہ طریقے استعمال کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ یوں
لگتا ہے کہ جاپان کو امریکہ کی تزویراتی برتری کو
وسعت دینے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔جاپان کا جزائر خریدنا اور
امریکا کا اعلان دونوں پہلو ایک دوسرے سے ایسے
جڑے ہوئے ہیں کہ انھیں الگ الگ نہیں دیکھا جا سکتا یہی چیز چین کی خودمختاری کے خلاف ہے جسے محسوس کرتے ہوئے چین نے جاپان
کی طرف سے جزائر خریدنے کی بھرپور مذمت کی اور کہا
کہ وہ اپنی خودمختاری پر آنچ نہیں آنے دے گا۔چین
کے عوام کی طرف سے بھرپور احتجاجی مظاہرے اور حکومت کا بحری بیڑے جزائر کی طرف روانہ کرنا معاملے کی سنگینی کو ظاہر کرتا
ہے۔نیٹو سربراہ لیون پنیٹا نے اپنے دورے میں چین کو
رام کرنے کی کوشش تو کی ہے مگر دکھائی یہ دیتا ہے کہ اگر چین کو اس کا حق
نہ دیا گیا توپورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا
ہے۔
جزائر
کی ملکیت کے دعوے
ان جزیروں کے اردگرد سمندری سرحدوں کا واضح تعین نہ ہونے کی وجہ سے چین اور جاپان ان کی ملکیت کے دعویدار ہیں ۔ چین کا کہنا ہے کہ 1534ء سے یہ جزائر چینی سلطنت کا حصہ رہے ہیں تاہم 1894-95ء میں پہلی سائنو جاپان جنگ میں یہ جاپان کے قبضے میں چلے گئے۔ مگر سان فرانسسکو امن معاہدے کے بعد جاپان کا دعویٰ ان جزیروں پر ختم ہو گیا ہے۔ سوائے ہونشو‘ ہو کیدو‘ کی یوشو‘ شی کوکو اور چند دوسرے جزائر کے۔ اس لئے باقی جزائر کا کنٹرول چین کے پاس ہونا چاہئے۔
ان جزیروں کے اردگرد سمندری سرحدوں کا واضح تعین نہ ہونے کی وجہ سے چین اور جاپان ان کی ملکیت کے دعویدار ہیں ۔ چین کا کہنا ہے کہ 1534ء سے یہ جزائر چینی سلطنت کا حصہ رہے ہیں تاہم 1894-95ء میں پہلی سائنو جاپان جنگ میں یہ جاپان کے قبضے میں چلے گئے۔ مگر سان فرانسسکو امن معاہدے کے بعد جاپان کا دعویٰ ان جزیروں پر ختم ہو گیا ہے۔ سوائے ہونشو‘ ہو کیدو‘ کی یوشو‘ شی کوکو اور چند دوسرے جزائر کے۔ اس لئے باقی جزائر کا کنٹرول چین کے پاس ہونا چاہئے۔
جاپان
سرے سے ان جزائر پرکوئی جھگڑا مانتا ہی نہیں اور وہ انہیں اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور چین کے 1895ء کے بعد جزائر
پر کنٹرول کے کسی قسم کے دعوے کو مسترد کرتا ہے اور یہ کہ
سان فرانسسکو امن معاہدے کے بعد بھی جزائر پر اسی کا کنٹرول ہے۔
نباتات
اور حیوانات
ان جزائر سے ادویات کے لئے جڑی بوٹیاں تلاش کرنے کی اجازت چین کے بادشاہی نظام سے 1893ء تک رہی اور یہ اجازت عام تھی ،کوئی بھی یہاںاس مقصد کے لئے آ سکتا تھا۔
ان جزائر سے ادویات کے لئے جڑی بوٹیاں تلاش کرنے کی اجازت چین کے بادشاہی نظام سے 1893ء تک رہی اور یہ اجازت عام تھی ،کوئی بھی یہاںاس مقصد کے لئے آ سکتا تھا۔
سب سے
بڑے جزیرے یوتیسوری جیما پر جڑی بوٹی سینکا کو مول اور چیونٹی کی ایک قسم اوکی ناوا کورو اوری پائی جاتی ہے۔ جڑی بوٹی
سینکا کو مول بھیڑ بکریوں کے لئے مہلک ہے جس کے کھانے
سے ان کی ہلاکت بھی ہو سکتی ہے۔
بطریل
کی نسل کا لمبے بالوں اور چھوٹی دم والا بحری پرندہ الباطروس ان جزائر میں اڑتا نظر آتا ہے۔ ان کی سب سے زیادہ تعداد
جزیرہ منامی کو جیما میں نظر آتی ہے۔
جزائر
کی جغرافیائی پوزیشن
دیایو/ سینکا کو جزائر کے مجموعے میں پانچ غیر آباد جزیرے اور تین بنجر پہاڑ شامل ہیں۔ مشرقی چینی سمندر میں واقع جزائر کا یہ مجموعہ تائیوان سے 120 ناٹیکل میل شمال مشرق‘ چین کی سرحد سے 200 ناٹیکل میل جبکہ جاپان کے بڑے جزیرے اوکی ناوا سے بھی 200 ناٹیکل میل کے فاصلے پر ہے۔ اگر جاپان اور چین سے ان کی دوری کا موزانہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ چینی جزیرے پنجیا سے یہ 140 کلو میٹر‘ جاپانی جزیرے ایشا کاگی سے 170 کلو میٹر‘ چینی جزیرے کیلنگ سے 186کلو میٹر اور جاپانی جزیرے اوکی ناوا سے 410 کلو میٹر دور ہیں۔
دیایو/ سینکا کو جزائر کے مجموعے میں پانچ غیر آباد جزیرے اور تین بنجر پہاڑ شامل ہیں۔ مشرقی چینی سمندر میں واقع جزائر کا یہ مجموعہ تائیوان سے 120 ناٹیکل میل شمال مشرق‘ چین کی سرحد سے 200 ناٹیکل میل جبکہ جاپان کے بڑے جزیرے اوکی ناوا سے بھی 200 ناٹیکل میل کے فاصلے پر ہے۔ اگر جاپان اور چین سے ان کی دوری کا موزانہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ چینی جزیرے پنجیا سے یہ 140 کلو میٹر‘ جاپانی جزیرے ایشا کاگی سے 170 کلو میٹر‘ چینی جزیرے کیلنگ سے 186کلو میٹر اور جاپانی جزیرے اوکی ناوا سے 410 کلو میٹر دور ہیں۔
ان
جزیروں کے اردگرد سمندر کی گہرائی 100 سے 150 میٹر (328-492 فٹ) تک ہے۔
جزائر
کی سطح کے پیندے کی بناوٹ اور ارد گرد کی سطح سے منسلک ہونے نے معاملے کو کافی
الجھا دیا ہے۔
شنگھائی
انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل سٹڈیز کے ایشیا پیسیفک ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر
جی گوزنگ کے مطابق چین اور جاپان کی ان جزائر سے منسلک ہونے کی وضاحت ایک دوسرے سے بالکل جدا ہے۔چین کا کہنا ہے کہ
اوکی ناوا کی سطح سے پتہ چلتا ہے کہ چین اور جاپان کی
براعظمی ڈھلانیں یا تہیں آپس میں ملی ہوئی نہیں
ہیں اور یہی چیز سرحد کا کام کر رہی ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ جبکہ جاپان کا کہنا ہے کہ براعظمی ڈھلانوں کی
سطح کا علیحدہ ہونا حادثاتی ہے اس لئے اسے بنیاد نہیں
بنایا جا سکتا اسے نظر انداز کیا جانا چاہئے۔
ایران پر ممکنہ حملے کی تیاریاں آخری مراحل میں
24ستمبر 2012ء
کو اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں اسرائیل
نیشنل انسٹی ٹیوٹ اسٹڈیز کی پرانی سی عمارت میں اسرائیل
کے تقریباً36اعلیٰ ترین سیاسی اور
فوجی اکابرین جمع تھے اور سب کے دل و دماغ میں صرف ایک ہی خوفناک سوال تھا کہ کیا اسرائیل کو ایران
پر حملہ کر دینا چاہئے اوراگر ایسا کیا گیا تو
ایران کی طرف سے کیا رد عمل آئے گا؟
معاملے
کی سنگینی کاجائزہ لینے کے لئے شرکا ء کو دس گروہوں میں تقسیم کر دیا گیاجو اسرائیل ، ایران ،امریکا ، روس، حزب اللہ ،
مصر ، شام ، ترکی ، روس اور اقوام متحدہ کی نمائندگی کر
رہے تھے۔کہنے کو یہ سب وار گیم پلاننگ تھی مگر وہاں موجود افراد کے چہروں
سے ظاہر ہونے والے دبے دبے جوش سے عیاں تھا کہ وہ سب اس یقین کے ساتھ شامل
ہیں کہ ایران پر حملے کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔
اسرائیل
کی طرف سے نیتن یاہو کا کردار ایک سابق اسرائیلی وزیر خارجہ نبھا
رہے تھے،باراک اوبامہ کی نمائندگی دو سابق اسرائیلی وزراء کر رہے تھے،اسی طرح روسی صدر پیوٹن کی نمائندگی بھی ایک
اسرائیلی سفارتکار کر رہے تھے جو ماسکو میں کافی وقت گزار چکے
تھے،بحث کا آغاز یوں ہوا کہ ایک رات کو اسرائیل نے اچانک ایران کی ایٹمی
تنصیبات پر حملہ کر دیا اور اس بارے میں امریکا
سے بھی مشورہ یا مدد نہیں لی۔
اس کے
بعد طویل بحث چھڑ جاتی ہے جس میںاسرائیلی حملے کے بعد ایران اور دنیا کے دیگر ممالک کے رد عمل کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے
۔ بالآخر نتیجہ یہ نکالا جاتا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے
حملے کی صورت میں ایران میزائل ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے بھرپور
حملہ کرے گا ،مگر اس کا توڑ اسرائیل کے پاس موجود ہے ، اسی طرح حزب اللہ
اور حماس وغیر ہ کی طرف سے راکٹ حملے کئے جائیں
گے۔ اقوام متحدہ میں ایران کے خلاف امریکا سے مدد لی جائے گی اس کے بحری اڈے بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں جبکہ ایران پر
حملے کی صورت میں وقتی طور پر دبائو کا سامنا کرنا ہو گا
جس کے بعد حالات معمول پر آجائیں گے۔
یہ وار
گیم بظاہر ایک کھیل ہی تھی مگر بحث کے لب لباب اور نتائج سے اس کی سنگینی صاف عیاں تھی اور اس کا اظہار اسرائیلی وزیر
اعظم نیتن یاہو نے حال ہی میں اسرائیلی ٹی وی چینل 2سے
گفتگو کرتے ہوئے کیا ،ان کا کہنا تھا کہ اگر ضروری سمجھا گیا تو
اسرائیل،ایران پر حملہ کر دے گا اس کے لئے اسرائیل
کو کسی سے مشورے یا اجازت کی ضرورت نہیں ،کیا ڈیوڈ بن گوریا ن نے اسرائیل کی بنیا د رکھتے ہوئے امریکا سے اجازت لی تھی ،
ان کا کہنا تھا کہ اگر ملک و قوم کی سلامتی کو خطرات
لاحق ہوںاور ہم اقدامات کرنے کے لئے دوسروں کی اجازت کا انتظار کرتے
رہیں تو ایسے افراد کو کوئی حق نہیں کہ وہ قوم کی
نمائندگی یا رہنمائی کریں۔
نیتن
یاہو کی گفتگو سے صاف ظاہر ہے کہ وہ ایران کے بارے میں کیا عزائم رکھتے ہیں، گو انھوں نے اسے ملک و قوم کی سلامتی کے ’’حفاظتی
خول ‘‘ میں لپیٹ کر بیان کیا ہے۔ ایران پر حملے
کی ان کی خواہش یا ارادہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ 2010ء میں انھوں نے
اسرائیلی افواج کو ایران پر حملے کے لئے الرٹ رہنے
کے احکامات جاری کر دئیے تھے جس سے پورے اسرائیل میں ایمرجنسی کی صورتحال ہو گئی تھی ۔ تب اسرائیلی چیف آف اسٹاف جنرل
گابی اشکن زی اور خفیہ ایجنسی موساد کے چیف میر دیگن نے
نیتن یاہو کے اس فیصلے کی مخالفت کی، یوں انھیں
بڑی مشکل سے حملہ کرنے کے فیصلے سے باز رکھا گیا ورنہ اب تک اسرائیل ایران جنگ شروع ہو کر اپنے اختتام کو بھی پہنچ چکی ہوتی۔
ایسے
خیالات صرف موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم کے ہی نہیں،2005ء میںایریل شیرون نے اسرائیلی فوج کو ایران کے نیوکلیر ری ایکٹر پر
حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کا حکم دیا، یوں پورے
ایک سال تک تیاری کی گئی مگر پھر کسی وجہ سے
حملے کا ارادہ منسوخ کر دیا گیا،امریکی صدر بش کے دور میں بھی اسرائیل نے ایران کے ایٹمی ری ایکٹر کو تباہ کرنے کے لئے امریکی
انتظامیہ سے عراق کی فضائی حدود استعمال کرنے کی
اجازت مانگی مگر انھوں نے اجازت دینے سے انکار
کر دیا۔
اسرائیل
کی جارحیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے،اس نے جب چا ہا جس پر چاہا حملہ کر دیا اور وجہ اس کی ہمیشہ وہی پرانی بتائی جاتی
ہے کہ اسرائیل کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوگئے تھے ،
اگر ایسانہ کیا جاتا تو شائد اسرائیل کا وجود
ہی خطرے میں پڑ جاتا ۔ امریکا کا لے پالک اور لاڈلا ہونے کی وجہ سے اسرائیل کو کبھی کسی طرف سے خاص رد عمل کا سامنا نہیں
کرنا پڑا،حتٰی کہ اقوام متحدہ میں بھی ظلم کا شکار
ہونے والوں کی بجائے اسرائیل کی ہی سنی جاتی ہے۔
اب اس
سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ امریکا اور دیگر حواریوں کی آشیر باد سے فلسطین کے سینے پر اسرائیل کے نام سے ایک نیا ملک قائم
کر دیا گیا اور لاکھوں فلسطینیوں کو شہید کر دیا
گیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور گزشتہ چند دنوں میں اسرائیل نے غزہ
پر بمباری کر کے سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید اور زخمی کر دیا ہے مگر اقوام
متحدہ یا کوئی اور کچھ نہ کر سکا ۔ اگر احتجاج کیا گیا تواسے بھی درخوء اعتنا
نہ جانا گیا ۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اسی چیز نے اسرائیل کے جارحانہ
عزائم کو بڑھاوا دیا اور اس نے فلسطین کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کو بھی
اپنا ٹارگٹ بنانا شروع کر دیا ۔
1981ء
میںاسرائیل نے عراقی ایٹمی پروگرام پر حملہ کر کے اسے تبا ہ کر دیا، اسی طرح 2007ء میںشام کے ایٹمی ری ایکٹر پر حملہ
کیا جس میں بہت سے افراد مارے گئے۔ اسرائیلی میڈیا کے
مطابق اسرائیل نے2009ء میںسوڈان میں دوحملے کئے، پہلا حملہ غزہ جانے
والے قافلے پر کیا گیا جس میں 119افراد ہلاک ہوئے جبکہ دوسرا حملہ سوڈان
پورٹ کے قریب بحری جہاز پر کیا گیا۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے دبئی
ہوٹل میں حماس اور ایران میں رابطے کا فریضہ سر انجام دینے والی اہم شخصیت
مبہوح کو قتل کر دیا اسی طرح 2011ء میں اس کے نائب کو پورٹ سوڈان ائیر پورٹ
کے قریب میزائل حملے میں ہلاک کر دیا ۔
25 اکتوبر
2012ء کو سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے قریب یرموک اسلحہ فیکٹری
پر حملہ ہوا جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ حملہ اسرائیل نے کیا، جب اسرائیلی حکام سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو
ادھر معنی خیز خاموشی خود ایک جواب تھی ،تجزیہ
نگاروں کا کہنا ہے کہ اصل میں اسرائیل نے اس
حملے کے ذریعے ایران کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ایسا اس کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے ۔
ایک
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل ایران پر حملے کی بار بار دھمکیا ں کیوں دیتا رہتا ہے ؟اسرائیلی حکام کا کہنا ہے
کہ ایران فلسطین میں جہادی تنظیموں حماس اور حزب اللہ کی
ہر طرح سے مدد کر تا ہے جس سے اسرائیل کے لئے ان تنظیموں پر قابو پانا
مشکل ہو گیا ہے۔ اگر اسرائیل کے اعتراض کا جائزہ
لیا جائے تو پتہ چلتاہے کہ 1979ء سے قبل ایران اور اسرائیل کے تعلقات بہت خوشگوار تھے تب بھی جہادی تنظیمیں اسرائیل
کے خلاف ویسے ہی برسر پیکار تھیں، اس لئے یہ نہیں کہا جا
سکتا ہے کہ صرف ایران کی مدد کی وجہ سے یہ تنظیمیں منظم طور پر کام کر رہی
ہیں ۔
اسرائیلی
وزیر اعظم کی طرف سے پے در پے مخالفانہ بیانات آنے پر ایرانی بریگیڈئیر
جنرل غلام رضا جلالی نے بھی القدس ڈے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو یہ تیسری
عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ تجزیہ
نگاروں کا کہنا ہے کہ ایران، شام اور لبنان وغیرہ سے بالکل مختلف ملک ہے،
اگر اسرائیل نے جارحیت کی تو اس کا سخت رد عمل آئے گا ، ایران کی میزائل
ٹیکنالوجی بالخصوص شہاب میزائل کی رسائی اسرائیل
کے اندر تک ہے جس سے صورتحال کافی خراب ہو سکتی ہے ، جب جنگ چھڑے گی تو (امریکا کی طرف سے جنگ سے دور رہنے کا عندیہ دینے
کے باوجود)ایران ہر اس ٹھکانے کو ٹارگٹ کرے گا جو
اسرائیل کا مدد گار ہو سکتاہے اس سے امریکا لازماً
جنگ میں کود پڑے گا ، دوسری طرف ایران کی حمایتی طاقتیں چین اور روس بھی پیچھے نہیں رہیں گی، یوں پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں
آ سکتا ہے۔
ایران
کے نیوکلیر پروگرام کے بارے میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی رپورٹ
ایران
کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کئی سالوں سے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ایران خفیہ طور پر ایٹم بم بنانے کی تیاری
کر رہا ہے۔انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے
وفود نے ایران کے ایٹمی ری ایکٹرز کا بارہا معائنہ کیا اور اس حوالے سے
کئی بارمذاکرات بھی ہوئے ،ہر مرتبہ ایران نے
انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ ایران کی تمام تر کوششوں کے باوجود مذاکرات کے آخر میں یہ کہہ کر معاملے کو الجھا دیا جاتا
کہ ایران آئی اے ای اے کے وفد سے کچھ خفیہ رکھنے کی
کوشش کر رہا ہے،اب یہ پتہ نہیں کہ ایسا کسی سازش کے تحت کیا جاتا ہے یا پھر
ایران واقعتاًکچھ معاملات خفیہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تاہم
اٹامک انرجی ایجنسی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ایران صرف 20فیصد یورینیم افزودہ کر رہا ہے جو اسے تہران ریسرچ ری ایکٹر
کے لئے چاہئے ہوتی ہے، جس سے تہران ری ایکٹر میں
میڈیکل آئسو ٹوپ تیار کئے جاتے ہیں یعنی ایران
کا یورینیم پر موقف بالکل درست ثابت ہوا ہے ۔ 20فیصدیورینیم کو کسی بھی طرح ری پروسس کر کے وار ہیڈز کے لئے استعمال بہت
مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔آئی اے ای اے کی رپورٹ کے
باوجود اسرائیل کی طرف سے مسلسل جارحانہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ
اسرائیل کا ملک و قوم کی سلامتی کے لئے خطرات کا ڈھنڈورا پیٹنا بلا وجہ ہے۔
اسرائیل
کے حملے کی صورت میں ایران گلف میں شپنگ بند کر دے گا،سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن
عسکری
اسرائیل،
ایران کے نیوکلیر پروگرام کو تباہ کرنے کے لئے ایک یا دو حملے کر سکتا ہے،دونوں ملکوں میں فاصلہ بہت زیادہ ہونے کی
وجہ سے طویل جنگ نہیں ہو گی،ایران کے پاس ائیر فورس بھی
موجود ہے اور وہ بھرپور دفاع کرے گا، اس لئے
اسرائیل کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں ،اگر اسرائیل نے حملہ کیا توایران کے پاس سب سے بڑا آپشن گلف کی بندش ہے جس سے
شپنگ بند ہوجائے گی،ایران کے پاس میزائل سسٹم بھی
موجود ہے چونکہ وہ ابھی تک آزمائے نہیں گئے اس لئے ان کے کارگر ہونے کے
بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
دوسری
طرف اسرائیل کے پاس ائیر ڈیفنس سسٹم موجود ہے اس لئے وہ ایران کے میزائل حملوں کو کافی حد تک ناکام بنا سکتا ہے یعنی وہ
اسی فیصد حملے ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حملے کی
صورت میں چین اور روس ،ایران کی حمایت کریں گے مگروہ جنگ میں حصہ نہیں لیں
گے،اسی طرح عالم اسلام کی طرف سے بھی ایران کو اخلاقی سپور ٹ حاصل ہو گی۔
Subscribe to:
Posts (Atom)