Sunday 23 December 2012

چین جاپان تنازع خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے

بحرالکاہل میں واقع سینکاکو/ دیایوجزائر کی ملکیت کے مسئلے پر چین اور جاپان میں کشیدگی بڑھتی جار ہی ہے۔
جو ناصرف دونوں ممالک کے لئے بلکہ پورے خطے کی سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ بن سکتی ہے،چین اور جاپان کے درمیان ان جزائر کی ملکیت کا معاملہ کوئی آج کا نہیں بلکہ یہ مسئلہ 1972ء سے حل طلب ہے جب امریکا نے ان جزائر کا قبضہ چین کا پہلا حق ہونے کے باوجود جاپان کو منتقل کر دیا تھا اس سے قبل بھی چین اس مسئلے کو مختلف فورمز پر اجاگر کرتا رہا ہے۔
متنازعہ جزائر کو جاپان والے سینکاکو اور چین والے دیایو کے نام سے پکارتے ہیں،ان میں پانچ جزیرے اور تین چٹانیں شامل ہیں۔ 15ویں صدی میں یہ جزیرے چینی سلطنت کا حصہ تھے تب امراء کے وفود ان جزیروں کا گاہے بگاہے دورہ کرتے تھے۔
جزیروں کے اس مجموعے کا نام دیایو بھی منگ سلطنت کے شاہی نقشے سے لیا گیا ہے اور اس گروہ کے اہم جزیرے یوتیسوری کا نام بھی جاپانیوں نے منگ سلطنت کے نقشے سے ہی اخذ کیا ہے ، ان دونوں ناموں کے معنی ماہی گیری کے ہیں، جبکہ ایک برطانوی کیپٹن بلچر نے اپنی کتاب میںان جزیروں کا ذکر پناکل (Pinnacle) آئی لینڈکے نام سے کیا۔ 1870ء اور 1880ء کی دہائیوں میں برطانوی بحریہ نے ان جزائر کے ساتھ واقع پہاڑیوں کے لئے پناکل کا نام استعمال کیا۔ اصل میں پناکل بھی انگریزی میں سینکاکواور دیایو کا مترادف ہے۔
جاپان اس زمانے میں ایک بڑی فوجی طاقت تھا اور اپنی طاقت کے زور پر اردگرد کے علاقوں کو اپنے زیر نگیں کر رہا تھا ،تب14 جنوری 1895ء میں جاپانی حکومت نے ان جزائر کو باقاعدہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ 1900ء کے اوائل میں جاپانی بزنس مین کوگا تتسو شیرو نے وہاں بونیتو فشرپز پلانٹ لگایا جہاں 200 ملازمین کام کرتے تھے یوں جاپانیوں کا وہاں آنا جانا لگا رہا تاہم چین کے ماہی گیر بھی ان جزائر کو اپنے عارضی قیام کے لئے استعمال کرتے تھے ۔ 1940ء میں کاروبار میں نقصان کی وجہ سے یہ منصوبہ بند کرنا پڑا‘ اس کے بعد یہ جزیرے تقریباً ویران ہو گئے۔
کوگا تتسو شیرو کے وارثوں زنجی اور پناکونے چارجزیرے کو ری ہاراخاندان کو فروخت کر دیئے۔ کونیکی کوری ہارا نے یوتیسوری‘ کیتاکو جیما اور منامی کو جیما نامی جزیرے خریدے جبکہ اس کی بہن نے کیوبا نامی جزیرہ خریدا۔
دوسری جنگ عظیممیں جاپان کی شکست اور سارے علاقے پر امریکی قبضے کے بعد 1945ء میں یہ جزیرے امریکی حکومت کے کنٹرول میں آ گئے۔ 1969ء میں اقوام متحدہ کے اکنامکس کمشن برائے ایشیا اور مشرق بعید نے رپورٹ دی کہ چین کے قریب بحرالکاہل میں واقع ان جزائر میں تیل اور گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ 1971ء میں امریکی سینٹ نے اوکی ناوا ریورشن ٹریٹی کے معاہدے کو منظور کر لیا جس کے بعد 1972ء میں امریکہ نے جزیرے جاپان کے حوالے کر دیئے، مگر چین اور تائیوان نے اس کی شدید مخالفت کی اور دعویٰ کیا کہ سینکاکو/ دیایو جزائر ان کی ملکیت ہیں اور وہی اس کے صحیح حق دار ہیں۔
امریکی سینٹ کا بل کیا پاس ہوا گویاجاپان نے اسے اپنے حق ملکیت پر مہر سمجھ لیا تب سے ان جزائر پر جاپان کا کنٹرول ہے، چونکہ جزائر ویران پڑے ہوئے تھے اس لئے چین نے کچھ زیادہ احتجاج نہ کیامگر اس کا موقف اٹل تھا اور اس سے کسی صورت پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہ تھا ۔ اسی سال جاپان کے ایک جزیرے ایشی کاگاکے میئر نے ان جزیروں کی تعمیر و ترقی کے لئے کوشش کی مگر حکومت کے منع کرنے پر وہ اس پر عمل نہ کر سکا۔ 1979ء میں 50 سرکاری افسروں پر مشتمل ایک وفد نے ان جزائر کا دورہ کیا اور چار دن تک جزیرہ یوتیسوری پر کیمپ لگایا،وفد میں ماہرین ماحولیات کو خاص طور پر شامل کیا گیا تھا۔ اس دوران وہاں کے ماحول بالخصوص آب و ہوا کا جائزہ لیا گیا تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ یہاں کا ماحول انسان کی رہائش کے لئے کتنا موزوں ہے۔
2002ء سے 2012ء تک جاپانی وزارت داخلہ نے کونیکی کوری ہارا سے تین جزیرے یوتیسوری‘ منامی کو جیما اور کیتا کو جیما 25 ملین ین سالانہ کرائے پر لے لئے جبکہ اس کی بہن سے جاپان کی وزارت دفاع نے جزیرہ کیوبا کرائے پر لیا جس کے سالانہ کرائے کی رقم خفیہ رکھی گئی۔ اس جزیرے کو امریکی فوج فضائی بمبماری کی تربیت کے لئے اپنے کنٹرول میں رکھے ہوئے ہے۔ ساتھ ہی موجود پانچویں جزیرے تیشو جیما پر 1972ء سے ہی جاپان کا کنٹرول ہے،یہ رقبے میں سب سے چھوٹا ہے۔
17 دسمبر 2010ء کو جاپانی جزیرے ایشی کاگا کی انتظامیہ نے سینکا کو/دیایو جزائر پرجاپان کے 1895ء سے قبضے کو یادگار دن کے طور پر منانے کے لئے 14 جنوری کی تاریخ مقرر کی تو چین کی طرف سے ان کے اس اقدام کی بھرپور مذمت کی گئی۔ 2012ء میں جاپانی حکومت اور ٹوکیو میٹروپولیٹن نے تین بڑے جزیرے یوتیسوری‘ کیتاکو جیما اور منامی کو جیما کے مالک کوری ہار ا سے خریدنے کے منصوبے کا اعلان کیااور یہ 11 ستمبر 2012ء کوپایہ تکمیل تک پہنچا۔جاپانی حکومت نے کوری ہارا سے تینوں جزیرے 2.05 بلین ین میں خرید لئے۔
غو ر طلب پہلو یہ ہے کہ ان بے آباد اور ویران جزائر کے حوالے سے جاپان کے موقف میں یکایک یہ شدت کیوں پیداہوئی ؟پہلے بھی تو جزائر وہیں پر موجود تھے ۔معاملات میں تبدیلی اس وقت آئی جب امریکا نے شمالی کوریا کے خلاف میزائل سسٹم کی تنصیب کا اعلان کیا جس کے لئے امریکا کو بحرالکاہل میں موزوں مقام کی تلاش ہے۔اس اعلان کے بعد ان جزائر کی اہمیت دو چند ہوگئی کیونکہ ان جزائر سے شمالی کوریا کے ساتھ ساتھ چین پر بھی نظر رکھی جا سکتی ہے یعنی ایک تیر سے دو شکار والی بات ہے۔
امریکہ کا ہمیشہ سے یہ طریقہ کار رہا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے بالواسطہ طریقے استعمال کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جاپان کو امریکہ کی تزویراتی برتری کو وسعت دینے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔جاپان کا جزائر خریدنا اور امریکا کا اعلان دونوں پہلو ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہوئے ہیں کہ انھیں الگ الگ نہیں دیکھا جا سکتا یہی چیز چین کی خودمختاری کے خلاف ہے جسے محسوس کرتے ہوئے چین نے جاپان کی طرف سے جزائر خریدنے کی بھرپور مذمت کی اور کہا کہ وہ اپنی خودمختاری پر آنچ نہیں آنے دے گا۔چین کے عوام کی طرف سے بھرپور احتجاجی مظاہرے اور حکومت کا بحری بیڑے جزائر کی طرف روانہ کرنا معاملے کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔نیٹو سربراہ لیون پنیٹا نے اپنے دورے میں چین کو رام کرنے کی کوشش تو کی ہے مگر دکھائی یہ دیتا ہے کہ اگر چین کو اس کا حق نہ دیا گیا توپورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
جزائر کی ملکیت کے دعوے
ان جزیروں کے اردگرد سمندری سرحدوں کا واضح تعین نہ ہونے کی وجہ سے چین اور جاپان ان کی ملکیت کے دعویدار ہیں ۔ چین کا کہنا ہے کہ 1534ء سے یہ جزائر چینی سلطنت کا حصہ رہے ہیں تاہم 1894-95ء میں پہلی سائنو جاپان جنگ میں یہ جاپان کے قبضے میں چلے گئے۔ مگر سان فرانسسکو امن معاہدے کے بعد جاپان کا دعویٰ ان جزیروں پر ختم ہو گیا ہے۔ سوائے ہونشو‘ ہو کیدو‘ کی یوشو‘ شی کوکو اور چند دوسرے جزائر کے۔ اس لئے باقی جزائر کا کنٹرول چین کے پاس ہونا چاہئے۔
جاپان سرے سے ان جزائر پرکوئی جھگڑا مانتا ہی نہیں اور وہ انہیں اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور چین کے 1895ء کے بعد جزائر پر کنٹرول کے کسی قسم کے دعوے کو مسترد کرتا ہے اور یہ کہ سان فرانسسکو امن معاہدے کے بعد بھی جزائر پر اسی کا کنٹرول ہے۔
نباتات اور حیوانات
ان جزائر سے ادویات کے لئے جڑی بوٹیاں تلاش کرنے کی اجازت چین کے بادشاہی نظام سے 1893ء تک رہی اور یہ اجازت عام تھی ،کوئی بھی یہاںاس مقصد کے لئے آ سکتا تھا۔
سب سے بڑے جزیرے یوتیسوری جیما پر جڑی بوٹی سینکا کو مول اور چیونٹی کی ایک قسم اوکی ناوا کورو اوری پائی جاتی ہے۔ جڑی بوٹی سینکا کو مول بھیڑ بکریوں کے لئے مہلک ہے جس کے کھانے سے ان کی ہلاکت بھی ہو سکتی ہے۔
بطریل کی نسل کا لمبے بالوں اور چھوٹی دم والا بحری پرندہ الباطروس ان جزائر میں اڑتا نظر آتا ہے۔ ان کی سب سے زیادہ تعداد جزیرہ منامی کو جیما میں نظر آتی ہے۔
جزائر کی جغرافیائی پوزیشن
دیایو/ سینکا کو جزائر کے مجموعے میں پانچ غیر آباد جزیرے اور تین بنجر پہاڑ شامل ہیں۔ مشرقی چینی سمندر میں واقع جزائر کا یہ مجموعہ تائیوان سے 120 ناٹیکل میل شمال مشرق‘ چین کی سرحد سے 200 ناٹیکل میل جبکہ جاپان کے بڑے جزیرے اوکی ناوا سے بھی 200 ناٹیکل میل کے فاصلے پر ہے۔ اگر جاپان اور چین سے ان کی دوری کا موزانہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ چینی جزیرے پنجیا سے یہ 140 کلو میٹر‘ جاپانی جزیرے ایشا کاگی سے 170 کلو میٹر‘ چینی جزیرے کیلنگ سے 186کلو میٹر اور جاپانی جزیرے اوکی ناوا سے 410 کلو میٹر دور ہیں۔
ان جزیروں کے اردگرد سمندر کی گہرائی 100 سے 150 میٹر (328-492 فٹ) تک ہے۔
جزائر کی سطح کے پیندے کی بناوٹ اور ارد گرد کی سطح سے منسلک ہونے نے معاملے کو کافی الجھا دیا ہے۔
شنگھائی انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل سٹڈیز کے ایشیا پیسیفک ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر جی گوزنگ کے مطابق چین اور جاپان کی ان جزائر سے منسلک ہونے کی وضاحت ایک دوسرے سے بالکل جدا ہے۔چین کا کہنا ہے کہ اوکی ناوا کی سطح سے پتہ چلتا ہے کہ چین اور جاپان کی براعظمی ڈھلانیں یا تہیں آپس میں ملی ہوئی نہیں ہیں اور یہی چیز سرحد کا کام کر رہی ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ جبکہ جاپان کا کہنا ہے کہ براعظمی ڈھلانوں کی سطح کا علیحدہ ہونا حادثاتی ہے اس لئے اسے بنیاد نہیں بنایا جا سکتا اسے نظر انداز کیا جانا چاہئے۔
 


No comments: