Sunday 23 December 2012

ایران پر ممکنہ حملے کی تیاریاں آخری مراحل میں

 24ستمبر 2012ء کو اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں اسرائیل نیشنل انسٹی ٹیوٹ اسٹڈیز کی پرانی سی عمارت میں اسرائیل کے تقریباً36اعلیٰ ترین سیاسی اور فوجی اکابرین جمع تھے اور سب کے دل و دماغ میں صرف ایک ہی خوفناک سوال تھا کہ کیا اسرائیل کو ایران پر حملہ کر دینا چاہئے اوراگر ایسا کیا گیا تو ایران کی طرف سے کیا رد عمل آئے گا؟
معاملے کی سنگینی کاجائزہ لینے کے لئے شرکا ء کو دس گروہوں میں تقسیم کر دیا گیاجو اسرائیل ، ایران ،امریکا ، روس، حزب اللہ ، مصر ، شام ، ترکی ، روس اور اقوام متحدہ کی نمائندگی کر رہے تھے۔کہنے کو یہ سب وار گیم پلاننگ تھی مگر وہاں موجود افراد کے چہروں سے ظاہر ہونے والے دبے دبے جوش سے عیاں تھا کہ وہ سب اس یقین کے ساتھ شامل ہیں کہ ایران پر حملے کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔
اسرائیل کی طرف سے نیتن یاہو کا کردار ایک سابق اسرائیلی وزیر خارجہ نبھا رہے تھے،باراک اوبامہ کی نمائندگی دو سابق اسرائیلی وزراء کر رہے تھے،اسی طرح روسی صدر پیوٹن کی نمائندگی بھی ایک اسرائیلی سفارتکار کر رہے تھے جو ماسکو میں کافی وقت گزار چکے تھے،بحث کا آغاز یوں ہوا کہ ایک رات کو اسرائیل نے اچانک ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر دیا اور اس بارے میں امریکا سے بھی مشورہ یا مدد نہیں لی۔
اس کے بعد طویل بحث چھڑ جاتی ہے جس میںاسرائیلی حملے کے بعد ایران اور دنیا کے دیگر ممالک کے رد عمل کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے ۔ بالآخر نتیجہ یہ نکالا جاتا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے حملے کی صورت میں ایران میزائل ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے بھرپور حملہ کرے گا ،مگر اس کا توڑ اسرائیل کے پاس موجود ہے ، اسی طرح حزب اللہ اور حماس وغیر ہ کی طرف سے راکٹ حملے کئے جائیں گے۔ اقوام متحدہ میں ایران کے خلاف امریکا سے مدد لی جائے گی اس کے بحری اڈے بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں جبکہ ایران پر حملے کی صورت میں وقتی طور پر دبائو کا سامنا کرنا ہو گا جس کے بعد حالات معمول پر آجائیں گے۔
یہ وار گیم بظاہر ایک کھیل ہی تھی مگر بحث کے لب لباب اور نتائج سے اس کی سنگینی صاف عیاں تھی اور اس کا اظہار اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے حال ہی میں اسرائیلی ٹی وی چینل 2سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ،ان کا کہنا تھا کہ اگر ضروری سمجھا گیا تو اسرائیل،ایران پر حملہ کر دے گا اس کے لئے اسرائیل کو کسی سے مشورے یا اجازت کی ضرورت نہیں ،کیا ڈیوڈ بن گوریا ن نے اسرائیل کی بنیا د رکھتے ہوئے امریکا سے اجازت لی تھی ، ان کا کہنا تھا کہ اگر ملک و قوم کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوںاور ہم اقدامات کرنے کے لئے دوسروں کی اجازت کا انتظار کرتے رہیں تو ایسے افراد کو کوئی حق نہیں کہ وہ قوم کی نمائندگی یا رہنمائی کریں۔
نیتن یاہو کی گفتگو سے صاف ظاہر ہے کہ وہ ایران کے بارے میں کیا عزائم رکھتے ہیں، گو انھوں نے اسے ملک و قوم کی سلامتی کے ’’حفاظتی خول ‘‘ میں لپیٹ کر بیان کیا ہے۔ ایران پر حملے کی ان کی خواہش یا ارادہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ 2010ء میں انھوں نے اسرائیلی افواج کو ایران پر حملے کے لئے الرٹ رہنے کے احکامات جاری کر دئیے تھے جس سے پورے اسرائیل میں ایمرجنسی کی صورتحال ہو گئی تھی ۔ تب اسرائیلی چیف آف اسٹاف جنرل گابی اشکن زی اور خفیہ ایجنسی موساد کے چیف میر دیگن نے نیتن یاہو کے اس فیصلے کی مخالفت کی، یوں انھیں بڑی مشکل سے حملہ کرنے کے فیصلے سے باز رکھا گیا ورنہ اب تک اسرائیل ایران جنگ شروع ہو کر اپنے اختتام کو بھی پہنچ چکی ہوتی۔
ایسے خیالات صرف موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم کے ہی نہیں،2005ء میںایریل شیرون نے اسرائیلی فوج کو ایران کے نیوکلیر ری ایکٹر پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کا حکم دیا، یوں پورے ایک سال تک تیاری کی گئی مگر پھر کسی وجہ سے حملے کا ارادہ منسوخ کر دیا گیا،امریکی صدر بش کے دور میں بھی اسرائیل نے ایران کے ایٹمی ری ایکٹر کو تباہ کرنے کے لئے امریکی انتظامیہ سے عراق کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت مانگی مگر انھوں نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
اسرائیل کی جارحیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے،اس نے جب چا ہا جس پر چاہا حملہ کر دیا اور وجہ اس کی ہمیشہ وہی پرانی بتائی جاتی ہے کہ اسرائیل کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوگئے تھے ، اگر ایسانہ کیا جاتا تو شائد اسرائیل کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا ۔ امریکا کا لے پالک اور لاڈلا ہونے کی وجہ سے اسرائیل کو کبھی کسی طرف سے خاص رد عمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا،حتٰی کہ اقوام متحدہ میں بھی ظلم کا شکار ہونے والوں کی بجائے اسرائیل کی ہی سنی جاتی ہے۔
اب اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ امریکا اور دیگر حواریوں کی آشیر باد سے فلسطین کے سینے پر اسرائیل کے نام سے ایک نیا ملک قائم کر دیا گیا اور لاکھوں فلسطینیوں کو شہید کر دیا گیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور گزشتہ چند دنوں میں اسرائیل نے غزہ پر بمباری کر کے سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید اور زخمی کر دیا ہے مگر اقوام متحدہ یا کوئی اور کچھ نہ کر سکا ۔ اگر احتجاج کیا گیا تواسے بھی درخوء اعتنا نہ جانا گیا ۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اسی چیز نے اسرائیل کے جارحانہ عزائم کو بڑھاوا دیا اور اس نے فلسطین کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کو بھی اپنا ٹارگٹ بنانا شروع کر دیا ۔
1981ء میںاسرائیل نے عراقی ایٹمی پروگرام پر حملہ کر کے اسے تبا ہ کر دیا، اسی طرح 2007ء میںشام کے ایٹمی ری ایکٹر پر حملہ کیا جس میں بہت سے افراد مارے گئے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیل نے2009ء میںسوڈان میں دوحملے کئے، پہلا حملہ غزہ جانے والے قافلے پر کیا گیا جس میں 119افراد ہلاک ہوئے جبکہ دوسرا حملہ سوڈان پورٹ کے قریب بحری جہاز پر کیا گیا۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے دبئی ہوٹل میں حماس اور ایران میں رابطے کا فریضہ سر انجام دینے والی اہم شخصیت مبہوح کو قتل کر دیا اسی طرح 2011ء میں اس کے نائب کو پورٹ سوڈان ائیر پورٹ کے قریب میزائل حملے میں ہلاک کر دیا ۔
25 اکتوبر 2012ء کو سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے قریب یرموک اسلحہ فیکٹری پر حملہ ہوا جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ حملہ اسرائیل نے کیا، جب اسرائیلی حکام سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو ادھر معنی خیز خاموشی خود ایک جواب تھی ،تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اصل میں اسرائیل نے اس حملے کے ذریعے ایران کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ایسا اس کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے ۔
ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل ایران پر حملے کی بار بار دھمکیا ں کیوں دیتا رہتا ہے ؟اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ایران فلسطین میں جہادی تنظیموں حماس اور حزب اللہ کی ہر طرح سے مدد کر تا ہے جس سے اسرائیل کے لئے ان تنظیموں پر قابو پانا مشکل ہو گیا ہے۔ اگر اسرائیل کے اعتراض کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتاہے کہ 1979ء سے قبل ایران اور اسرائیل کے تعلقات بہت خوشگوار تھے تب بھی جہادی تنظیمیں اسرائیل کے خلاف ویسے ہی برسر پیکار تھیں، اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ صرف ایران کی مدد کی وجہ سے یہ تنظیمیں منظم طور پر کام کر رہی ہیں ۔
اسرائیلی وزیر اعظم کی طرف سے پے در پے مخالفانہ بیانات آنے پر ایرانی بریگیڈئیر جنرل غلام رضا جلالی نے بھی القدس ڈے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو یہ تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایران، شام اور لبنان وغیرہ سے بالکل مختلف ملک ہے، اگر اسرائیل نے جارحیت کی تو اس کا سخت رد عمل آئے گا ، ایران کی میزائل ٹیکنالوجی بالخصوص شہاب میزائل کی رسائی اسرائیل کے اندر تک ہے جس سے صورتحال کافی خراب ہو سکتی ہے ، جب جنگ چھڑے گی تو (امریکا کی طرف سے جنگ سے دور رہنے کا عندیہ دینے کے باوجود)ایران ہر اس ٹھکانے کو ٹارگٹ کرے گا جو اسرائیل کا مدد گار ہو سکتاہے اس سے امریکا لازماً جنگ میں کود پڑے گا ، دوسری طرف ایران کی حمایتی طاقتیں چین اور روس بھی پیچھے نہیں رہیں گی، یوں پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
ایران کے نیوکلیر پروگرام کے بارے میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی رپورٹ
ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کئی سالوں سے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ایران خفیہ طور پر ایٹم بم بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے وفود نے ایران کے ایٹمی ری ایکٹرز کا بارہا معائنہ کیا اور اس حوالے سے کئی بارمذاکرات بھی ہوئے ،ہر مرتبہ ایران نے انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ ایران کی تمام تر کوششوں کے باوجود مذاکرات کے آخر میں یہ کہہ کر معاملے کو الجھا دیا جاتا کہ ایران آئی اے ای اے کے وفد سے کچھ خفیہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے،اب یہ پتہ نہیں کہ ایسا کسی سازش کے تحت کیا جاتا ہے یا پھر ایران واقعتاًکچھ معاملات خفیہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تاہم اٹامک انرجی ایجنسی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ایران صرف 20فیصد یورینیم افزودہ کر رہا ہے جو اسے تہران ریسرچ ری ایکٹر کے لئے چاہئے ہوتی ہے، جس سے تہران ری ایکٹر میں میڈیکل آئسو ٹوپ تیار کئے جاتے ہیں یعنی ایران کا یورینیم پر موقف بالکل درست ثابت ہوا ہے ۔ 20فیصدیورینیم کو کسی بھی طرح ری پروسس کر کے وار ہیڈز کے لئے استعمال بہت مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔آئی اے ای اے کی رپورٹ کے باوجود اسرائیل کی طرف سے مسلسل جارحانہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کا ملک و قوم کی سلامتی کے لئے خطرات کا ڈھنڈورا پیٹنا بلا وجہ ہے۔
اسرائیل کے حملے کی صورت میں ایران گلف میں شپنگ بند کر دے گا،سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری
اسرائیل، ایران کے نیوکلیر پروگرام کو تباہ کرنے کے لئے ایک یا دو حملے کر سکتا ہے،دونوں ملکوں میں فاصلہ بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے طویل جنگ نہیں ہو گی،ایران کے پاس ائیر فورس بھی موجود ہے اور وہ بھرپور دفاع کرے گا، اس لئے اسرائیل کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں ،اگر اسرائیل نے حملہ کیا توایران کے پاس سب سے بڑا آپشن گلف کی بندش ہے جس سے شپنگ بند ہوجائے گی،ایران کے پاس میزائل سسٹم بھی موجود ہے چونکہ وہ ابھی تک آزمائے نہیں گئے اس لئے ان کے کارگر ہونے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
دوسری طرف اسرائیل کے پاس ائیر ڈیفنس سسٹم موجود ہے اس لئے وہ ایران کے میزائل حملوں کو کافی حد تک ناکام بنا سکتا ہے یعنی وہ اسی فیصد حملے ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حملے کی صورت میں چین اور روس ،ایران کی حمایت کریں گے مگروہ جنگ میں حصہ نہیں لیں گے،اسی طرح عالم اسلام کی طرف سے بھی ایران کو اخلاقی سپور ٹ حاصل ہو گی۔

No comments: