Monday, 26 August 2013

جنرل ضیاءالحق کا دورہ بھارت ''کرکٹ ڈپلومیسی'' 1987

انڈیا ٹو ڈے کے نامہ نگار اپنے مضمون ضیاء الحق کا دورہ ہندوستان میں راجیو گاندھی کے خصوصی مشیر "بہرامنام " کے تاثرات یوں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔!!!

" جنرل ضیاءالحق بغیر کسی دعوت کے کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے دہلی پہنچے ۔ اس وقت راجیو گاندھی اس کو ائر پورٹ پر ریسیو کرنے کے لیے بلکل تیار نہیں تھے ۔ انڈین افواج راجھستان سیکٹر سے پاکستان پر حملہ آور ہونے کے لیے صرف اپنے وزیر اعظم کی حکم کی منتظر تھیں ۔ ان حالات میں ضیاء الحق سے ملنا ہرگز مناسب نہیں تھا ۔ لیکن کیبنٹ کے اراکین اور اپوزیشن لیڈرز کا خیال تھا کہ کسی دعوت نامے کے بغیر بھی ضیاء الحق کی دہلی آمد ( وہاں سے انہوں نے چنائی جانا تھا میچ دیکھنے) پر اسکا استقبال نہ کرنا سفارتی آداب کے خلاف ہوگا اور ان حالات میں پوری دنیا میں انڈین لیڈرز کے بارے میں غلط فہمی پھیلی گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

ہمارے مطالبے پر راجیو گاندھی ضیاء الحق سے ملنے ائر پورٹ پہنچا اور اسنے نہایت سرد مہری سے ضیاء کی آنکھوں میں دیکھے بغیر اس سے ہاتھ ملایا ۔ راجیو نے مجھے سے کہا کہ " جنرل صاحب نے چنائی میچ دیکھنے جانا ہے آپ اسکے ساتھ جائیں اور انکا خیال رکھیں "۔ بھگوان جانتا ہے کہ وہ شخص آہنی اعصاب کا مالک تھا اور راجیو کے ہتک آمیز رویے پر بھی اس کے چہرے پر بدستور مسکراہٹ قائم رہی ۔۔۔۔۔!!

چنائی کے لیے روانگی کے وقت ضیاء الحق نے راجیو گاندھی کو خدا حاٖفظ کہنے سے پہلے کہا ۔۔۔۔۔۔" مسٹر راجیو آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں بے شک کریں ۔ لیکن یہ ذہن میں ضرور رکھیں کہ اسکے بعد دنیا چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائے گی اور صرف ضیاءالحق اور راجیو گاندھی کو یاد رکھے گی ۔ کیونکہ یہ ایک روائیتی جنگ نہیں ہوگی بلکہ ایٹمی جنگ ہوگی ۔ ممکنہ طور پر اس میں پورا پاکستان تباہ ہو جائے گا لیکن مسلمان پھر بھی دنیا میں باقی رہیں گے تاہم انڈیا کی تباہی کے بعد ہندومت کا پوری دنیا سے خاتمہ ہو جائے گا۔ "

راجیو گاندھی کے پیشانی پر ٹھنڈے پسینے کے قطرے نمودار ہو چکے تھے ۔ جبکہ مجھے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس ہو رہی تھی ۔ صرف کچھ لمحات کے لیے ضیاء الحق ہمیں ایک نہایت خطرناک شخص نظر آیا ۔ اس کا چہرہ پتھرایا ہوا تھا اور اسکی آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس پر لازمً عمل کرے گا اور پورے بر صغیر کو ایٹمی جنگ کی مدد سے راکھ میں تبدیل کر دے گا ۔

میں دہل کر رہا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ پلک جھپکتے ہی ضیاء کے چہرے پر مسکراہٹ لوٹ آئی اور اسنے کھڑے دیگر لوگوں سے نہایت گرم جوشی سے ہاتھ ملایا ۔ میرے اور راجیو کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ بظاہر ہلکے پھلکے اور خوشگوار موڈ میں نظر آنے والے ضیاء الحق نے انڈین وزیر اعظم کے لیے شدید پریشانی پیدا کر دی ہے

No comments: