الیکٹرونک جنگ
اب برقی مقناطیسی میدان پر قبضہ جنگوں میں فتح و شکست کا فیصلہ کرے گا
''ایک افسر
کو حکومت جنرل بناتی ہے' لیکن یہ پیغام رسانی (کمیونیکیشن) ہی ہے جو اسے کمانڈر کا
رتبہ عطا کرتی ہے''۔ (جنرل عمر بریڈلے'
پہلے امریکی چیئرمین آف دی جوائنٹ چیف آف سٹاف)
٭ ٭
جولائی 2006 ء میں جب اسرائیلی فوج جنوبی لبنان میں حزب
اللہ کے ٹھکانوں پر حملہ آور ہوئی' تو اس سے قبل اسرائیلیوں نے اپنی دانست میں بڑااہم
قدم اٹھایا ۔ ہوا یہ کہ انہوں نے لبنانی
فضاؤں میں اپنے وہ جنگی اورلڑاکا جہاز بھجوادیئے جن میں ہر قسم کی پیغام رسانی.....
ریڈیو ، ریڈار، موبائل اور وائرلیس نیٹ ورکنگ وغیرہ جام
کرنے کے جدید آلات نصب تھے۔ مدعا یہ تھا کہ مختلف علاقوں میں موجود حزب اللہ کے
گوریلوں کا باہمی رابطہ ٹوٹ جائے۔
لیکن اسرائیلی فوج کو یہ جان کر دھچکا لگا کہ ہر علاقے میں
لبنانی گوریلےان کی آمد سے پہلے ہی واقف ہوتے۔ چناچہ دوران جنگ اسرائیلیوں کو اچھا
خاصا جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ عالمی سطح پر سبکی الگ ہوئی کہ مٹھی بھر گوریلوں نے دنیا کی اعلیٰ تربیت یافتہ فوج کی مٹی پلید کردی۔ آخر کار اسرائیلی جنگ ختم کرنے پر مجبور
ہوگئے۔
بعد ازاں انکشاف ہوا کہ ''الیکٹرونک فنٍ جنگ '' (Electronic warfare) کے ایرانی ماہرین حزب اللہ کی صفوں
میں موجود تھے۔ انہوں نے اینٹی جامرآلات کی مدد سے اسرائیلی الیکٹرونک حملے کو
ناکام بنادیا۔ چناچہ گوریلوں کے بیشتر ریڈیو اور ریڈار کام کرتے رہے اور ان کا آپس
میں رابطہ رہا۔ اسی صلاحیت نے انہیں اس قابل بنادیا کہ اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور
دشمن کے دانت کھٹے کرسکیں۔
جولائی 2006ء کی حزب اللہ۔ اسرئیل جنگ پہلا موقع تھاجب یہ
حقیقت سامنے آئی کہ الیکٹرونک جنگ کے تجربے کار ماہرین ایک چھوٹی طاقت کو بھی یہ صلاحیت بخشتے ہیں کہ
وہ بڑی طاقت کو شکست دے سکے۔ الیکٹرونک جنگ لڑائی کا ایک جدید طریقہ کار ہے۔ اسے
پچھلے دس برس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زبردست فروغ کی وجہ سےعروج ملا۔شبعۂ جنگ
کا ہدف حریف افواج کا باہمی رابطہ ہے تاکہ اسے مفلوج کردیا جائے۔ ظاہر ہے، قصور کے
محاذ پر نبردآزما پاک فوج کا سیالکوٹ یا لاہور کے محاذوں پر لڑتے ساتھیوں یا فضائی
شاہینوں سے رابطہ ختم ہوجائے، تو وہ خود
کو حملہ آوروں کے رحم و کرم پر پائے گی۔
الیکٹرونک جنگ سے
مختلف قسم کام لیے جاتے ہیں، مثلاً دشمن کے میزائیلوں کا رخ موڑدینا، دشمنوں کے
ریڈیو اور کمپیوٹروں کو جھوٹی اور غلط معلومات فراہم کرنا، اپنے متعلق فرضی دینا
وغیرہ۔ یہ الیکٹرونک جنگ جنگی ہوائی جہازوں، بحری جہازوں یا بکتربند گاڑیوں پر نصب
ایسے جدیدترین آلات(جامروں) کے ذریعے لڑی جاتی ہےجو ہر قسم فضائی ذرائع پیغام
رسانی مثلاً ریڈیو، وائرلیس، ریڈار، سینسر، جی پی ایس ریسیور، موبائل اور ٹی وی
نشریات جام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکی ماہرین اب تو ایسے آلات بھی ایجاد
کرنے کی کوشش میں ہیں جو مخصوص دائرے میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی نشریات بھی جام
کردیں گے۔ غرض الیکٹرونک جنگ کا شعبہ عسکری میدان میں تھوڑے عرصے میں غیر معمولی
اہمیت اختیار کرگیا۔ کیونکہ یہ ایک ملک کی ساری افواج کو مفلوج کرنے کی صلاحیت
رکھتا ہے۔
2011ء میں پاکستانیوں
نے بھی دو بار الیکٹرونک جنگ کا مزہ چکھا۔ پہلی بار مئی میں امریکی ہیلی کاپٹر بعض
پاکستانی ریڈار جام کرکےاسامہ تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔
دوسری بار ماہ نومبر میںجب نیٹو ہیلی کاپٹروں نے پاکستانی
چوکی پر حملہ کیا۔ ان ہیلی کاپٹروں میں ریڈار اور کمیونیکیشن جام کرنے والے آلات
نصب تھے۔ ان حملوں سے یہ فائدہ ضرور ہوا
کہ پاک افواج کو الیکٹرونک جنگ کی اہمیت و ضرورت کا احساس ہوگیا۔
حقیقت یہ کہ مستقبل میں جو ملک الیکٹرونک جنگ کی جتنی جدید
ٹیکنالوجی اور ماہرین رکھے گا ، عالمی سطح
اور میدان جنگ میں اسی کا پلہ اتنا ہی بھاری ہوگا۔ یہی وجہ کہ بڑی طاقتوں مثلاً امریکہ، چین ، روس ، بھارت، برطانیہ اور فرانس میں الیکٹرونک جنگ
باقاعدہ تعلیم کا شعبہ بن چکا ہے۔ ایسا پہلا سکول 2006ء میں امریکیوں نے اپنے فوجی
مستقر، فورٹ سل ( ریاست اوکلوہاما ) میں کھولا۔
امریکی چاہتے ہیں کہ 2013ء تک الیکٹرونک جنگ لڑنے کے
انتہائی ماہر سولہ سو فوجی تیار کر لیے جائیں۔
الیکٹرونک جنگ میں '' برق مقناطیسی طیف '' (Electromagnetic spectrum) کو نشانہ بنایا جاتا
ہے۔ یہ وہ طیف ہے جس میں سات برقی مقناطیسی شعائیں…… گیما، ایکس ریز، بنفشی (
الٹراوائلٹ) ، روشنی انفراریڈ، مائکروویوز اورریڈیائی لہریں سفر کرتی ہیں۔ چونکہ ان تمام شعاعوں یا لہروں میں ریڈیائی لہریں سب
سے دور جاتی ہیں اور انہی کی فریکوئنسی بھی کم ہے، لہٰذا تمام ریڈیو ، ریڈار،
وائرلیس سسٹم، موبائل، ٹیلی فون وغیرہ ان کے ذریعے کام کرتے ہیں۔ تاہم امریکہ و
بعض یورپی ممالک کی افواج نےایسے عسکری
آلات بھی ایجاد کیے ہیں جو انفرا ریڈاور مائکروویوز کی مدد سے کام انجام دیتے ہیں۔
عسکری سطح پر ریڈار
کمیونیکیشن کے دیگر آلات جام کرنے والا سب سے مہلک ہتھیار فی الوقت امریکیوں کا EA-18G گرولر طیارہ ہے۔ اس کے پروں تلے ایسے ریڈار، انٹینے
اور دیگر ہائی ٹیک آلات نصب ہیں جو سب سے پہلے حریف کے ریڈار تلاش کرتے ہیں۔ بعد
ازاں وہ وہاں سے آنے والے ریڈیائی سگنل جام کردیتے ہیں۔ اگر ریڈاروں کی فریکوئنسی
بدلی جائے تو، گرولر کے آلات وہی نمونہ اختیار کرلیتے ہیں تاکہ وہ کسی صورت کام نہ
کرسکیں۔ غرض گرولر کا یہ کام ہےکہ وہ برق مقناطیسی طیف پر قبضہ کرکے دشمن کو کو
وہاں کسی بھی جگہ ٹکنے نہ دے۔ کل
سازوسامان سے لیس ایک گرولر طیارے کی قیمت سات کروڑ چالیس لاکھ ڈالر ( تقریباً 652 کروڑ
روپے) ہے۔
ایک ماہر عسکریات ، پیٹرسنگر کہتا ہے '' قدیم زمانے میں
لڑائی نیزوں اور تلواروں سے لڑی جاتی تھی۔ پھر بارود، توپیں اور رائفلیں آگئیں۔ اب
ریڈیائی لہریں اور کمپیوٹر کوڈ بنیادی ہتھیار بن چکے ہیں۔ یہ علم حرب و فنون کے
ارتقا کی فطری شکل ہے''۔
پاک افواج کو چاہیئے کو کہ وہ بھیالیکٹرونک فن جنگ کو اہمیت
دیں۔ ویسے بھی ہمارا مقصد جارحیت نہیں دفاع ہے۔ چنانچہ پاکستانی ماہرین کو دوست
ممالک چین اور ترکی کے ساتھ مل کرجدید ترین اینٹی جامنگ آلات بنانا ہوں گے، ایسے
آلات جو فوجی اور سول پیغام رسانی جام کرنے والےآلات کا توڑ ثابت ہوں اور انہیں
اپنا کام نہ کرنے دیں۔ اس شعبے میں چینی خاصی ترقی کر چکے ہیں جن سے ہماری لازوال
دوستی ہے۔
فی الوقت الیکٹرونک کی سب سے بڑی قوت امریکہ ہے۔ دراصل اس
کے پاس جدید جامروں سے لیس دیو ہیکل جہاز موجود ہیں۔ امریکیوں کے بحری جہاز بھی ریڈار
جام رکھنے والے طاقتور جامر رکھتے ہیں۔ واضح رہے، بعض عسکری ماہرین کا دعویٰ ہے کہ
اسامہ بن لادن کےخلاف آپریشن میں EC-130H کمپاس کال نے حصہ لیا تھا۔اسی کی مدد سے پاکستانی ریڈار
ناکارہ بنائے گئے۔
مستقبل کی جنگوں میں مواصلاتی سیارے (سٹیلائٹ) بھی اہم
کردار ادا کریں گے۔ اسی لیے ان کے ذریعے ہونے والی پیغام رسانی جام کرنے کی
خاطر جی پی ایس جامر سامنے آئے۔ ان جامروں
نے 2003 ء میں عراق عراق پر حملے کے دوران امریکیوں کو خاصا پریشان کیا تھا۔ دراصل
امریکی سمجھ ہی نہیں سکےکہ ٹام ہاک کروز میزائل نشانے پر کیوں نہیں بیٹھ رہے ؟ (یہ
کروز میزائلمواصلاتی سیارے کے ذریعے رہنمائی حاصل
کرتا ہے)۔ آخر ایک عراقی غدار نے
انہیں اطلاع دی کہ عراقی فوج نے جی پی ایس
جام کرنے والے روسی آلات لگارکھے ہیں۔ چنانچہ امریکیوں نےکارپٹ بمباری کرکے تمام
جامر تباہ کردیئے۔ اس کے بعد تمام میزائل درست نشانے پر گرنے لگے۔
اس مضمون کا حاصل یہی ہے کہ مستقبل کی جنگوں میں الیکٹرونک
جنگ ہی جیت یا ہار کا فیصلہ کرے گی۔ چنانچہ یہ وقت کی پکار ہےکہ ہماری بری، فضائی اور بحری افواج مل کر الیکٹرونک جنگ لڑنے
میں کم ازکم اتنی طاقت ور ضرور ہوجائیں کہ کسی بھی دشمن کو منہ توڑ جواب دےسکیں۔
لہٰذا ضروری ہےکہ ایسا تعلیمی ادارہ کھولا جائےجہاں ہمارے جوان الیکٹرونک جنگ لڑنے
کی تعلیم و تربیت حاصل کریں۔ نیز اس سے متعلق جدید آلات و سامان خریدنےاور
خود تیار کرنے کی طرف بھی توجہ دی جائے۔ اس شعبہ میں بھارتی ہم سے خاصا آگے ہیں۔
google-site-verification: google3e72267aa52354fc.html
No comments:
Post a Comment